ماهنامه دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء

 

علماء کا معاشرے میں کردار

 

از: یرید احمد نعمانی

 

 

”مدرسہ کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے باضمیر، باعقیدہ، با ایمان، باحوصلہ اور باہمت فضلاء پیدا کرے جو اس ضمیر فروشی،اصول فروشی اور اخلاق فروشی کے دور میں روشنی کے مینار کی طرح قائم رہیں کہ وہ کہیں نہیں جاتا اپنی جگہ پر کھڑا ہے، راستہ بتاتا ہے۔ جیسے ”قبلہ نما“ کہ آپ کہیں ہوں وہ آپ کو قبلہ بتادے گا۔ ہندوستان میں بتائے گا، دوسرے ملک میں بتائے گا، پہاڑ پر رکھیں تو بتائے گا، پل پر رکھیں تو بتائے گا۔ یہ ”عالم“ کا کام ہے کہ وہ ہر زمانے میں ہر جگہ ”قبلہ نما“ بنا رہے۔“

 

قارئین! درج بالا اقتباس مفکر اسلام ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ایک تقریر سے اخذ کیاگیا ہے۔ شومئی اعمال جب سے ذرائع ابلاغ واعلام پر باطل قوتوں اور یہودی دماغوں کا تسلط ہوا، تب سے سچ کو جھوٹ جھوٹ کو سچ کہنے، مکروفریب کو دیانت وامانت کے پیرہن میں پیش کرنے اورنیک کو بد، بد کو نیک کے روپ میں ملفوف کرنے کا گورگھ دھندا روز افزوں ترقی پر ہے۔ اس غلط پروپیگنڈے اور تزویری ڈھنڈورے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ”راہنمایان ملت وقوم“ کی کردارکشی اور ان کی خدمات جلیلہ ومفیدہ سے صرف نظر کرکے ان کے وجود مسعود پر انگشت نمائی کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کی نسبتی کڑیاں اور لڑیاں اس نبی آخرالزماں سے جاملتی ہیں جن کی آمد کی خبر پاکر ظلمتوں کو اجالوں کی کرن ملی۔ جو اپنے بعد نورتوحید کی ضیاء پاشی کے لیے ”نفوس قدسیہ“ کی ایسی کھیپ وجماعت تیار کرگئے، جن کے علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور ہوتی رہیں، جن کے دم سے جہالت کی شب تاریک کے افق پر معرفت کی صبح صادق طلوع ہوتی رہی۔ ان کا وجود ہر دور میں ”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ کا مظہر رہا۔

 

قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت، اس کے معنی کا فہم اور نفوس کا تزکیہ یہ وہ بنیادی اوصاف ہیں جنہیں ”کتاب حق“ نے نبی خاتم صلى الله عليه وسلم کی بعثت مبارکہ کے بنیادی اور کلیدی مقاصد میں سے گردانا ہے۔ آپ کی وساطت و توسط سے یہ ذمہ داری خیرامت کے ”راسخون فی العلم“ کے سپرد کی گئی۔ اس چشمہ صافی سے نکلنے والی تشنہ سیر نہروں نے اپنے آب شیریں سے چار دانگ عالم کو سیراب کیا۔ پیاسوں کو تشنگی کا سامان، بھٹکے ہوؤں کو منزلوں کا پتا اور ضلالت کی تاریکیوں میں شب بسر کرنے والوں کو نور ہدایت کی نوید ملی۔ ”کام“ کی اسی اہم آہنگی و یک آہنگی کی وجہ سے ”مدینة العلم“ صلى الله عليه وسلم نے شہر علم و آگہی کے ”خوشہ چینیوں“ کو اپنا نائب و وارث قرار دے کر امت کے بقیہ طبقات پر ان کی فوقیت و فضیلت کی مہر استناد نقش فرمادی۔

 

تاریخ سے معمولی شدبد رکھنے والے فرد پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ خلافت بنو امیہ و بنو عباس کے عہد حکمرانی میں ہونے والی اسلامی فتوحات کا سبب جہاں محمد بن قاسم، عقبہ بن نافع، موسی بن نضیر اور طارق بن زیاد جیسے جرأت، بہادری اور غیرت ایمانی کا استعارہ بن جانے والے جرنیل بنے، وہاں ان مفتوحہ ملکوں اور علاقوں میں اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر منوانے کا سہرا ان مجتہدین اور علماء ربانیین کے سرجاتا ہے، جن کی نتیجہ خیز کوششوں اور کاوشوں نے دین اسلام کی ابدی و دائمی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کی۔ ابوحنیفہ، احمد بن حنبل، مجدد الف ثانی اور شیخ الہند اسی چمنستان معرفت و آگہی کے وہ گل سرسبد تھے، جنھوں نے اپنے اپنے معاشروں اور ادوار میں پائے جانے والے عقائد ورسوم کے مابین حق وباطل، صدق وکذب اور کھرے وکھوٹے کا فرق و امتیاز لیل ونہار کے تضاد کی طرح دنیا کے سامنے آشکارا کیا۔

 

آپ صرف برصغیر کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بت کدہ سرزمین پر اسلام کا پھریرا بلند کرنے والے محمد بن قاسم سے لے کر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک اور مولانا قاسم نانوتوی سے لے کر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تک علماء وصلحاء، مفسرین ومحدثین، مجاہدین ومبلغین اور فقہاء ومفتیین کی صورت میں ناموں اور کاموں کی ایک ایسی طویل فہرست نظر آئے گی جن کے ایمان وایقان، اخلاص وللہیت، حریت فکر اور یقین محکم کی بدولت دنیا بھر میں سینکڑوں مسلمان آج بھی دین ومذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ اہل مساجد ومدارس اور ارباب خانقاہ اپنے اوپر عائد ہونے والی پیغمبرانہ نیابت کی ذمہ داریوں کا نہ صرف کما حقہ ادراک رکھتے ہیں بلکہ اپنی عملی، علمی اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر چراغ سے چراغ جلانے کا عمل پوری آب وتاب سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

 

اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ”دین قیم“ کو تا صبح قیامت اس دھرتی پر قائم ودائم رہنا ہے۔ اس کی نشر واشاعت، حفاظت و صیانت اور موثر دعوت کے لیے ایسے رجال کار کا ہونا ناگزیر وضروری ہے جو معاشرے اور سماج کو شرکے اوہام باطلہ و خیالات فاسدہ کی گلن اور سڑن سے بچا کر خیر کے افکار ونظریات صحیحہ کی خوشبو اور مٹھاس سے روشناس کراسکیں۔ جو باطل کی ملمع سازی کا لباس حق کی شمشیر فاصل سے چاک کرسکیں۔ جن کے کردار میں میانہ روی، راست بازی اور صداقت شعاری کی شمع فروزاں ہو۔ امت کی چودہ سو سالہ نوشتہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ علوم وحی کے ان وارثوں اور جانشینوں نے زمان ومکان اور حالات کی ادلتی بدلتی اور الٹتی پلٹتی ہواؤں کے دوش بہ دوش چلنے کی بجائے ”قبلہ نما“ بن کر ملت کی گاڑی کو شاہراہ ہدایت کی جانب گامزن کرنے کا فریضہ مکمل استقامت و عزیمت، تندہی وجانفشانی اور ہمت وشجاعت کے ساتھ سر انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے قرب قیامت کی جو علامات واخبارات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک واضح نشانی علم کا اٹھ جانا اور گمراہی کا عام ہوجانا بھی ہے۔

 

عزیزان من! تھوڑی دیر کے لیے اپنی چشم بینا سے موجودہ زمانے پر نظر عمیق ڈالیے۔ دیکھئے، سوچئے اور سمجھئے ... کیا یہ وہی زمانہ اور دور نہیں؟ جس کے بارے میں مخبر صادق صلى الله عليه وسلم نے آج سے چودہ صدیاں بیشتر خبر دی تھی کہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ علم کو اپنے قبضہ میں ایسے نہیں لیں گے کہ لوگوں کے سینوں سے نکال لیں، بلکہ علماء کی موت کی صورت میں علم اٹھایا جائے گا۔ یہاں تک کہ کوئی ایک عالم باقی نہیں بچے گا۔ پھر لوگ ایسے ”سروں“ کو اپنا پیشوا اور مقتدا بنالیں گے جو نرے جاہل ہوں گے، جن سے سوال کیا جائے گا (دین کے بارے میں) تو عدم علم کی بنیاد پر فتوی دیں گے۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“

 

***